( چند حسینوں‌کے خطوط ، چند تصویرِ بُتاں ( حصہِ انکشاف )

پھر عجب امتحاں آپڑا تھا ۔ ہم عارضی عشق میں مبتلا ہونے آئے تھے ۔ مگر یہاں مستقل عشق کے آثار پیدا ہوچلے تھے ۔ جس سے ہمارے عشقوں کی بقا ، ملک کی سالمیت کی طرح خطرے میں پڑ چکی تھی ۔ کیونکہ صبح کا اجالا اور شام کی شفق کا خیال ہمارے ذہن سے ایکدم محو ہونا شروع ہوگیا تھا۔ سوچا تھا کالج کی چھیٹیوں میں اسکول کی جاب جوائن کرکے جب مصنوعی عشق میں مبتلا ہوجائیں گے تو کالج واپسی پر ہمیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجائےگی ۔ مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ ہمارا نام تاریخ میں عشق کے حوالے سے ایک مشہور ٹی وی اسٹار کیساتھ لکھے جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔ جس کے ہم ہرگز محتمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ ناچار ہمیں اس سلسلے میں دوبارہ شاہد صاحب سے رجوع کرنا پڑا جو بیمار تھے ۔ ہمارے ذرائع کے مطابق شاہد صاحب معمولی سے موسمی زکام کا شکار تھے ۔ سو ہم نےاسکول جانے سے قبل ان کی عیادت کا پروگرام بنایا اور ان کے گھر پہنچ گئے ۔
شاہد صاحب کو جس حال میں ہم نے بسترِ علالت پر دیکھا تو سوچا کہ عیادت کے بجائے ان کی تعزیت کرکے چلے جائیں ۔ مگر ہم نے اس فریضے کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھا ۔ ہمیں ان کی شکل کسی میز پر پڑی ہوئی سوکھی ہوئی اُلٹی ناسپاتی کی طرح لگی ۔ موصوف دو عدد کنگ سائز کے کمبلوں میں 35 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں لپٹے ہوئے پڑے تھے ۔ داوؤں کا ایک وافر ذخیرہ ان کے بستر کی سائیڈ ٹیبل پر موجود تھا ۔ جسے دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ بازار میں داوؤں کی قلت کا ذمہ دار کون ہے ۔ کچھ دیر ہم تحمل سے بیٹھے رہے مگر جب شاہد صاحب نے کوئی حرکت نہ کی تو ہم نے سوچا ان کے گھر والوں کو خبر کردیں کہ شاہد صاحب کا کمرہ ان کے چھوٹے بھائی کے لیئے خالی ہوگیا ہے ۔ اچانک شاہد صاحب زور سےکراہے تو ہم نے اس خبر کی اشاعت موخر کردی ۔ شاہد صاحب نے نیمِ مرگ کی مانند ہمیں دیکھا ۔ ہم نے ان کی خود ساختہ نزع کی حالت کو نظر انداز کرتے ہوئے جھٹ سے سلام جڑ دیا ۔ اور ان کی خیریت پوچھی ۔
انہوں نے خفگی کا اظہار کیا اور کہا ” اب آئے ہو ۔۔۔۔ وہ بھی اکیلے ” ۔
ہم سے رہا نہیں گیا اور کہا ” آپ فکر نہ کریں ۔ تین آدمی بھی کہیں سے مل ہی جائیں گے ۔ ”
انہوں نے ہماری بات کو شاید سمجھا نہیں اور کہا ” میرا مطلب ہے کہ ہماری منظورِ نظر کو بھی ساتھ لے آتے ۔ کم از کم مجھے اس حال میں دیکھ کر اس کا دل پسیجتا اور اپنا دل ہار بیٹھتی ۔ ” ہم سمجھ گئے کہ شاہد صاحب نے روایتی عاشقوں کی طرح اپنی بیماری کا ڈرامہ رچا کر اپنی منظورِ نظر کی ہمددریاں سمیٹنے کی کوشش کی ہے ۔
” شاہد صاحب ۔۔۔ ! ہماری اطلاع کے مطابق ، آپ کی منظور نظر کی اب تک واپسی نہیں‌ ہوئی ہے ۔ مگر آپ کے ڈرامے میں اس قدر جان ہے کہ اگر وہ آ بھی جاتی تو سب سے پہلے آپ کو اس حال میں دیکھ کر آپ کے چالیسویں کا دن ضرور مقرر کرتی ۔ کچھ خدا کا خوف کرو یار ۔ اس قدر گرمی میں دو لحاف لیکر پڑے ہوئے ہو ۔”
” لگتا ہے میں نے غلط اندازہ لگا لیا ۔ کیونکہ میری اطلاع کے مطابق اسے اب تک آجانا چاہیئے تھا ۔ خیر تم سناؤ کیا پروگریس ہے ۔ ”
انہوں نے جھنپتے ہوئے اپنے ایکسرے جیسے جسم سے دونوں لحاف ہٹاتے ہوئے سوال کیا ۔
” کیا بتاؤں ۔۔۔ بس قیامت ہوگئی ہے ۔ ” ہم نے اضطراری کیفیت اختیار کرتے ہوئے جواب دیا ۔
” یا اللہ خیر ۔۔۔۔ اسکول میں تو سب ٹھیک ہے ناں ۔ کہیں تم نے ۔۔۔۔۔ ” اس سے پہلے شاہد صاحب ہمارے کردار پر سیاستدانوں کی طرح انگلیاں اٹھاتے، ہم نے انہیں روک دیا ۔
” یار ! پوری بات سنو ” ہم نے جُھلجھلاتے ہوئے کہا ۔
” ہم تیسرے عشق میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ ” ہم نےاپنی نئی کشمکش کا سبب ان کے سامنے بیان کردیا ۔
” ویری گڈ ۔۔۔ یہ تو بہت اچھا ہوا کہ کالج کی چھٹییاں ختم ہونے سے پہلے تمہارا مسئلہ حل ہوگیا ۔ اب دیکھتے ہیں کہ کالج واپسی پر تمہارے نصیب میں صبحِ نور آتا ہے یا شامِ چراغ ۔ ”
” ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ معاملہ ہمیشہ کی طرح المناک صورت اختیار کرگیا ہے ۔ ” ہم نے رونی سی صورت بنا لی ۔
” کیوں کیا ہوگیا ” شاہد صاحب نے تشویش اور حیرت جیسی ملی جلی کیفیت میں سوال داغا ۔
” کل ہم نے جو حسین سراپا دیکھا ، اس کے بعد دل کسی طرف مائل نہیں ہورہا ۔ سمجھ نہیں آتا کہ ایکدم سے ہمیں کیا ہوگیا ہے ۔ ”
پھر ہم نے بےچارگی کے عالم میں یہ شعر پڑھا ۔۔۔
میری قسمت میں عشق گر اتنے تھے
دل بھی یارب کئی دیے ہوتے
” یار ! کم از کم شعر تو صحیح کہہ لو ” شاہد صاحب نے بسترِ مرگ پر بھی غالب کا دفاع کیا ۔
” جنابِ من ۔۔۔ اگر چچا غالب ایسی کشمکش میں مبتلا ہوتے تو وہ بھی اسی خیال کے مالک ہوتے ۔ “
ہم نے شاہد صاحب پر پوسٹ مارٹم شدہ شعر کے فضائل وضع کرنے کی کوشش کی ۔
” اچھا چھوڑو یہ شعر و شاعری اور بتاؤ ۔۔۔۔۔ پھر کیا ہوا ، کون تھی ، کیا کوئی بات ہوئی ، اسکول ٹیچر تھی یا کوئی وزیٹر تھی ۔ ؟ ”
شاہد صاحب نے ایک ساتھ 12 وٹامن کی گولیاں کھا کر سوالات کی بوچھاڑ کرڈالی ۔
” بس اسکی ایک جھلک دیکھ پایا ، اور اس نے جس نظر سے ہمیں‌ دیکھا ، ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس نظر میں کچھ اور تسلسل رہتا تو ہم دیوانے ہوجاتے ۔ ”
ہم نے شاہد صاحب پر اپنی کیفیت عیاں کرنے کی کوشش کی ۔
” ہمممم ۔۔۔۔ ” شاہد صاحب نے سوچ میں پڑگئے ۔
” آج اسکول جاؤ ۔۔۔۔ اگر ٹیچر ہے تو ضرور نظر آجائے گی ۔ ویسے تم نے کسی میلے میں ماں سے بچھڑے ہوئے بچے کی طرح اپنی جو شکل بنا رکھی ہے ۔ اسے دیکھ کر یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ تمہارا آخری اور حتمی عشق ہوگا ۔ اور اگر ایسا ہے تو تم کو چنداں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تمہارے "سابقہ ” عشقوں کا کیا ہوگا ۔ میرے بھائی ۔۔۔ ! زندگی میں ایک ہی عشق کافی ہوتا ہے ۔ اگر یہ عشق سچا ہے تو تمہارے عشقوں کو بریک لگ جانا چاہیئے ۔ اس صورتحال میں یہ سودا برا نہیں ہے ۔ ”
شاہد صاحب نے ہمارے موجودہ عشقوں کو سابق قرار دینے کا فتوی جاری کرتے ہوئے ہماری فقیرانہ طبعیت پر بھی چوٹ کی ، مگرہم نے اسے نظرانداز کردیا کیونکہ ہمیں کوئی ایسا سیاسی بہانہ درکار تھا جو ہمیں اپنے پچھلے بیانات ( عشق ) سے منحرف کردے ۔ چنانچہ ہم نے ان کے فتویٰ پر لبیک کہتے ہوئے اپنے دونوں عشقوں سے منحرف ہوتے ہوئے اس کی تمام تراخلاقی ذمہ داری شاہد صاحب پر ڈال دی ۔
” شاہد صاحب ۔۔۔۔ تُسی گریٹ ہو ” ہم جذبات سے مغلوب ہوگئے ۔ مگر ہم نے ان کے ہاتھ چومنے سے پرہیز کرتے ہوئے صرف اسے تھامنے تک ہی محدود رکھا ۔ کیونکہ کسی تمباکو کے پان کی کیساتھ اب ہم میں داؤوں کی بُو سونگھنے کی بلکل ہمت نہیں تھی ۔
شاہد صاحب کی دعاؤں اور فتوے کے بعد ہم اسکول کی طرف روانہ ہوئے ۔ جانے کیوں دل کو یقین ہوچلا تھا کہ آج اُس لالہ رخ سے ملاقات ہوجائے گی ۔ راستے میں اس حسینہ کے تصور میں ہم ایسے منہمک ہوئے کہ اسکول سے بھی تقریبا تین کلو میٹر آگے نکل گئے ۔ ہوش تب آیا جب ہم ایک بھینس سے بغلگیر ہوتے بال بال بچے ۔ بھینس نے غصے کے عالم میں اپنی غزالی آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور ایک لمبی سی ” ہوں ” کی ،۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کہہ رہی ہو ” شرم نہیں آتی کسی کو چھیڑتے ہوئے ۔ ” ۔ بھینس کے اس شکوے پر ہمیں اپنے ذوق کی بے مائیگی کا شدت سے احساس ہوا ۔ مگر ہم نے یہ بھی شکر کیا کہ آس پاس کوئی بیل نہیں تھا ۔ ورنہ اس کو بھینس کے سامنے اپنے نمبر بناتے ہوئے ذرا سی بھی دیر نہیں لگتی ۔ ہم نے کمالِ پھرتی سے موٹر سائیکل کو تقریباً زمین پر لٹاتے ہوئے واپس موڑا اوراسکول کی طرف ایک بار پھر روانہ ہوگئے ۔ اسکول ذرا تاخیر سے پہنچے ۔ اسمبلی شروع ہوچکی تھی اور قرات جاری تھی ۔ ہم سیدھا اپنی جگہ گئے اور وہاں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے ۔ غیرارادی طور پر ہماری نظر سامنے خواتین ٹیچرز کی قطار پر پڑی ۔ وہ وہاں موجود تھی ۔ ہمارا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔ ہم نے واضع طور پر اس کو اپنی طرف متوجہ پایا ۔ ہمارے دل کی دھڑکن اتنی بلند ہوگئی کہ ساتھ کھڑے ہوئے مجاہد صاحب ہمیں خونخوار نظروں سے گھورنے لگے۔ شاہد وہ سمجھے کہ ہم اپنی جیب میں موبائل فون پر ایف ایم 11 سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ خوشی کے عالم میں ہم قومی ترانے میں بھی ہاتھ باندھے کھڑے رہے ۔
حسبِ معمول اسمبلی سے فارغ ہوکر ہم اسٹاف روم آئے ۔ ہمارے ساتھ مجاہد صاحب بھی تھے ۔ ان کا بھی ہماری طرح کلاس ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے پہلا پریڈ کہیں نہیں تھا ۔ ہمیں بے چینی سے اس حسینہ کے کوائف درکار تھے ۔ مجاہد صاحب سے اس بارے میں پوچھنا ، مطلب پولیس کے تفتیشی مراحل سے گذرنا تھا ۔ سو ہم خاموش رہے ۔ ہم نے وقت گذاری کے لیئے اخبار کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ وہ اسٹاف روم میں داخل ہوئی اور عین ہماری سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی ۔
” السلام علیکم سر ” ۔ ہمیں ایسا لگا جیسے کسی نے کوئی مدھر سا گیت چھیڑ دیا ہو ۔ وہ ہم سے ہی ہمکلام تھی اللہ اللہ ۔
” وعلیکم السلام ” ہم نے مشینی انداز میں جواب دیا ۔
” آپ کے بارے میں کافی سنا تھا ، سوچا کہ واپسی پر فوراً آپ سے ملاقات کی جائے ۔ مگر ۔۔۔۔ کل آپ کہاں غائب ہوگئے تھے ۔ ” اس نے شکوے بھرے لہجے میں پوچھا ۔
ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے دفتر سے واپسی پر تاخیری کے سبب ہمیں نخرہ دکھایا جا رہا ہے ۔ اور پھر ہم نے خیالوں ہی خیالوں میں دروازے پر شوہروں کی طرح اسے اپنا بریف کیس پکڑواتے ہوئے بھی دیکھا ۔
” سر ۔۔۔۔ کہاں ہیں آپ ” اس نے ہمیں دوبارہ اسٹاف روم میں لاتے ہوئے پکارا ۔
ہم اس کو کیا بتاتے کہ ” اے حسینہ ! کل تجھ کو کہاں نہیں ڈھونڈا ، ساری رات ہم نے تیرے تصور میں گذاری ، چوبیس گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں ہم اپنے تمام سابقہ عشقوں سے بھی تائب ہوئے ۔ ”
” دراصل کل مجھے ایک ضروری کام تھا ۔ اس لیئے اسکول تا دیر ٹہر نہیں سکا ” ہم نے اپنی خودی کو بلند رکھا
ہم نے سوچا کہ کل اسے ہم ڈھونڈتے رہے اور یہ ہمیں ڈھونڈتی رہی ۔ مگر ٹکراؤ کہیں نہیں ہوا یہ بات سمجھ نہیں آئی ۔
” اوہ اچھا۔۔۔۔ خیر آپ سنائیں ، اسکول میں پڑھانے کے سوا اور آپ کیا کرتے ہیں ۔ ” اس نے بڑی انہماکی سے پوچھا
” پڑھانے کے علاوہ ہم بس عشق کرتے ہیں ۔ ” ہمارے منہ سے نکلتے نکلتے رہ گیا ۔
” ہم فرسٹ ائیر کے طالب علم ہیں ۔ شاہد صاحب نے کالج کی چھٹیوں میں اسکول میں پڑھانے پر رحجان دلایا کہ اس سے پچھلے نصابوں کی بھی یاد دہانی ہوجاتی ہے ۔ ”
ہم نے کمالِ ڈھٹائی کیساتھ دروغ گوئی سے کام لیا ۔
” ہاں یہ تو سچ ہے ۔ کیونکہ میں نے بھی یہی سوچ کر یہاں پڑھانے کا سلسلہ جاری کیا اور اس بہانے پاپا کا بھی کچھ کام سنبھال لیتی ہوں ۔ ”
اس کے جملے کے آخری حصے سے ہمارے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجی اور ہم نے استفار کیا ۔
” پاپا کا کام ۔۔۔۔۔ میں کچھ نہیں سمجھا ۔ ”
” ” ارے ۔۔۔ آپ نئے ہیں ناں ۔۔۔ اس لیئے شاید آپ کو علم نہیں کہ پرنسپل صاحب میرے پاپا ہیں ۔ ”
اس نے گویا ہمارے سر کے عین اوپر دھماکہ کرتے ہوئے انکشاف کیا ۔
“ یعنی ۔۔۔۔ آپ ۔۔۔ پرنسپل صاحب کی صاحبزادی ہیں ۔ “ ہم نےعطااللہ خاں نیازی کی طرح شدتِ کرب کے عالم میں اس انکشاف پر جیسے گنگنانے کی کوشش کی ۔
“ جی ہاں ۔۔۔ میں پرنسپل صاحب کی ہی صاحبزادی ہوں ۔“ وہ اُسی طرح مترنم تھی ۔
ہماری آنکھوں کے سامنے جیسے اندھیرا چھانے لگا ۔ یہ کیفیت کالج میں کسی طالبہ کی طرف مسلسل دیکھنے پر اس کی طرف سےصلواتیں سننے پر بھی طاری نہیں ہوئی تھی ۔ مگرہماری حالت اب غیر تھی ۔ ہم اپنی محبت کے تصوراتی ڈرامے کے پہلے ہی سین میں بریف کیس سمیت دروازے پر سے ہی لوٹا دیئے گئے تھے ۔
کیونکہ اس بار ہم اپنا سب کچھ لُٹا کر جسے اپنا دل سونپ چکے تھے ۔ وہ شاہد صاحب کی منظورِ نظر تھی۔
( جاری ہے )‌‌‌‌‌‌

تبصرہ کریں