ایک دن میرے والد صاحب کے دوست “ انکل ماچس “ نے بلکل نئی موٹر سائیکل خریدی ۔ اور اپنے گھر کے سامنے ، اسے سارا دن چلائے بغیر اس پر ایسے بیٹھے رہتے جیسے کوئی راجہ سنگھاسن پر بیٹھتا ہے ۔ جب بھی میں وہاں سے گذرتا مجھے دیکھ کر وہ ایک آنکھ بھینچ کر اپنی موٹر سائیکل کپڑے سے صاف کرنے لگ جاتے ۔ ان سے میری روایتی دشمنی تو پہلے ہی سے جاری تھی سو مجھے ان کے اس حرکت سے اور بھی تپ چڑھتی ۔ شام کو میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے باہر کھڑا ہوا تھا کہ وہ موصوف اپنی اسی موٹر سائیکل پر آئے اور ابو کا پوچھنے لگے ۔دریں اثناء میرے ایک دوست نے پوچھا ” انکل موٹر سائیکل کتنے کی لی ۔ ؟ ” انہوں نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ ” پورے 55 ہزار کی ہے ” ۔ میں نے کہا ” انکل ۔۔۔ 18 روپے اور ملا کر نئی خرید لیتے ۔ ”
میرا خیال ہے اس دفعہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پھر میرے ساتھ کیا ہوا ۔ 🙂
موٹر سائیکل
26 جنوری 2011 10 تبصرے
in یادِ رفتگاں
جنوری 26, 2011 @ 23:19:31
ہاہا۔۔۔ یہ انکل ماچس کو تیلیاں آپ خوب لگا رہے ہیں۔ موصوف سے اب تو ہمدردی سی محسوس ہورہی ہے۔ 🙂
جنوری 27, 2011 @ 01:36:43
انکل ماچس کی اصطلاح خوب ہے اور اٹھارہ روپے اور ملانے کا مشورہ بہت ہی مرمت افروز تھا۔
کچھ توجہ تمہاری فلمستان کے بلاگ کی طرف بھی چاہیے ظفری۔
http://www.filmistan.info/wall-e
اس لنک پر تبصرہ اور بعد ازاں ایک فلمی تجزیہ درکار ہے 🙂
جنوری 27, 2011 @ 04:12:56
🙂 غریب و امیر اسطرح کی بات برداشت کر جاتے ہیں مگر شیخی خور جل کر رہ جاتا ہے۔ آپکی حاضر جوابی خوب ہے۔
جنوری 27, 2011 @ 06:09:57
ميں نے نے ويسپا سُپر 150 سی سی سکوٹر 1967ء ميں 3900 روپے کا خريدا تھا ۔ اُن دنوں 70 سی سی موٹر سائيکل 1600 روپے کا ملتا تھا ۔ جتنے ميں پرانا موٹر سائيکل خريدا گيا اس ميں 4 نئی ٹويوٹا کرونا کاريں خريدی جا سکتی تھيں ۔
😆
جنوری 27, 2011 @ 14:11:07
صرف اٹھارہ روپے کی وجہ سے اپکو تین سو کی مریم پٹی کروانی پڑی ہو گی۔۔
:ڈ
آپکی پوسٹ کی فیڈ نوٹیفیکیشن اردو ویب میں نہیں آ رہی۔۔
ماچس کے ٹینک کے بعد سے کوئی بھی نہیں آئی فیڈ میں چیک کیجیئے ۔۔
جنوری 27, 2011 @ 14:12:39
مسٹیک اوپر والا تبصرہ بلاامتیاز کا ہے
جنوری 27, 2011 @ 20:28:01
خوب!
جنوری 28, 2011 @ 01:38:16
عثمان :
ارے آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ۔ موصوف نے مجھےابو سے جتنی مار پڑوائی ہے ۔ اتنی تو میں نے پڑھائی میں بھی نہیں کھائی ان سے ۔ میں نے بھی گن گن کے بدلے لیے ۔ 🙂
محب :
انکل ماچس کے نام سے وہ آج بھی پہچانے جاتے ہیں ۔ رہی فلمستان کی بات تو یار ۔۔۔ میں موویز کم ہی دیکھتا ہوں ۔ جب موویز دیکھوںگا نہیں تو تبصرہ کیسے کروں گا ۔ ویسے جیسے موقع ملا تو اپنے انداز سے کچھ نہ کچھ ضرور لکھ آؤں گا ۔
گوندل صاحب :
آپ کا مشاہدہ اس سلسلے میں زبردست ہے ۔ واقعی یہ مسئلہ اس قسم کے لوگوں کو لاحق ہوتا ہے ۔
افتخار صاحب :
جی بجا فرمایا آپ نے ۔ اور انکل ماچس نے بھی کم ازکم دس گیارہ ہزار روپے کچھ اوپر ہی بتائے تھے ۔ اور اسی بھی زچ کھا کر مجھ سے رہا نہیں گیا تھا ۔ 🙂
امتیاز اور بلاامتیاز :
جی جناب ! آپ کے دونوں کمنٹس کی اشاعت ہوچکی ہے ۔ کیونکہ ہم امتیازی سلوک کے قائل نہیں ۔ 🙂
یاسر :
پسندیدگی کے لیئے شکریہ جناب
جولائی 09, 2011 @ 12:21:31
مجھے تو آج کافی دنوں کے بعد آپ کا بلاگ ملا ہے اس لیے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں لیکن شکوہ وہی ہے حسینوں والی تحریر
جولائی 14, 2011 @ 14:22:18
آپ کا شکوہ سر آنکھوں پر ۔۔۔ ان شاءاللہ جلد ہی آپ اس کی تازہ قسط دیکھیں گے ۔