چند حسینوں کے خطوط اور چند تصویرِ بُتاں

زندگی بڑی عجیب شے ہے ۔ انسان اکثر کسی چھوٹی سی چیز کو پانے کے لیئے مچل جاتا ہے مگر مجال ہے کہ وہ چیز میسر آجائے ۔ اور جب تھوڑے پر قناعت کرنا چاہے تو وہی حال ہوتا ہے جو چھپر پھٹنے کے بعد اکثر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یعنی جو چھپر پھاڑ کر ملتا ہے اس کے نصف سے چھپر کی مرمت کرانی پڑتی ہے ۔ اور باقی نصف پولیس والوں کو دینا پڑتا ہے باوجود اس لاکھ دھائی کہ ظالموں ! میں نے ‌کہیں سے چوری نہیں کیا ہے بلکہ اوپر والے نے چھپر پھاڑ کردیا ہے ۔ مگر آج کے زمانے میں‌ کون ان پرانی باتوں پر یقین کرتا ہے اور وہ بھی پولیس والے ۔
تو صاحبو ! قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں زندگی میں پہلا عشق ہوا ۔ یہ میڑک کے دور کی بات ہے ۔ ابھی اس عشق کو پروان چڑھے تقریباً پونےتین دن ہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک انکشاف یہ ہوا کہ کسی اور خاتون کو بھی ہم سے عشق ہوگیا ہے ۔ یہ وہ نکتہِ آغاز ہے، جس کا ہم نےسب سے پہلے اپنی آپ بیتی میں ذکر کیا ۔ مجال ہے کہ آدمی کو عشق ہوجائے اور چلو ہو بھی جائے تو پھر چھپر پھاڑ کر ملنا اس نازک معاملے میں‌ کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر اس دو رخی عشق ( جسے دو رخی تلوار کہنا زیادہ مناسب رہے گا ) میں سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ جس سے ہم نے عشق کیا اس کے سامنے ہم جوان ہوئے ۔ سو جب بھی دل کی بات کہنے کی کوشش کی تو معمر مستورات کا احترام جانے کیوں ہمارے زبان کی چاشنی بننے لگتا ۔ اور پھر ہم نے اُسے ہمیشہ باجی کہہ کر مخاطب کیا اور بعد میں کھسیا کر اپنی ادبی طبعیت کو کوستے ہوئے ٹائم وغیرہ پوچھ لیا کرتے تھے ۔ متعدد بار کوشش کی کہ اپنی دل کی بات اس دل ُروبا کو کہہ دیں مگر زبان نے بھی گویا قسم کھا رکھی تھی کہ آپا اور باجی کے علاوہ منہ سے کچھ اور نہیں اُگلنا ۔ ویسے بھی ضیاءالحق کا وہ بڑا نازک دور تھا ۔ اس زمانے میں حقوق العباد کا جذبہ نوجوانوں میں بہت عام ہوا کرتا تھا ۔ جس کے نتیجے میں ہر بس اسٹاپ پر بس کے اگلے حصے سے ( جو خواتین کے لیئے مختص تھا ) وہاں ‌سے نوجوانوں کو برآمد کرکے ڈنڈوں اور لاتوں سے تواضع کی جاتی تھی ۔ اس کارِ خیر میں نوجوانوں کیساتھ کچھ بزرگ بھی حصہ لیکراپنی کھوئی ہوئی جوانی کی بھڑاس نکال لیا کرتے تھے ۔
اسی دوران دوسرے عشق کا سانحہ ہوگیا ۔ دوسرے عشق کا سانحہ پہلے عشق کے المیے کے بلکل برعکس تھا ۔ یعنی جس سے ہمیں عشق ہوا اس کے سامنے ہم جوان ہوئے اور جسے اب ہم سے عشق ہوا ۔ وہ محترمہ ہمارے سامنے جوان ہوئیں ۔ عشقِ اول میں ہماری زبان آپا اور باجی کی تکریم کی پابند تھی جبکہ عشقِ دوم میں زبان ، ِبیٹا رانی کہہ کہہ کر نہیں‌ تھکتی تھی ۔ بہت عرصے تک ہم سر مارتے رہے کہ اپنی زبان کو لگام دیں مگر ہر کوشش بےسود ثابت ہوئی۔ بلآخر فیض کی اس نظم سے ہم نے اپنے دل کے بناسپتی گھی سے جلے ہوئے چراغ بجھائے ۔
کچھ عشق کیا ، کچھ کام کیا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
خیر میڑک کا زمانہ گذر گیا ۔ چونکہ ہم اپنے دیگر دوستوں کی طرح عشق کی اصل روح سے صحیح طور پر واقف نہیں ہو سکے تھے۔ اس لیئے کئی اچھے دوستوں کو اسکول میں‌ چھوڑ کر آگے کالج کی دنیا میں قدم رکھا ۔ دوستوں نے ہمیں بڑی لعنت ملامت کی کہ ہم انہیں چھوڑ کر جا رہے ہیں مگر دوستوں کی گریہ آوزری سے زیادہ ہمیں اپنے والدِ محترم کے اس چھتر کی فکر تھی ۔ جو انہوں نے صرف اس ارادے سے خریدا تھا کہ اگر ہم میڑک میں فیل ہوگئے تو ہماری پشت ہٹا کر یہ وہاں نصب کردیا جائے گا ۔
کالج کی دنیا ، ایک نئی دنیا تھی ۔ حتٰی کہ ہم خود کو بھی نئے نئے سے لگے ۔ اسکول میں اپنا خیال کیا رکھا ہوگا جو ہم نے کالج میں اپنے ہی ناز اٹھائے۔ ہم بوائز اینڈ گرلز کالج میں پدھارے تھے ۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے سارے شہر کا حسن ، ہماری کلاس میں بس گیا ہے ۔ ہماری کلاس میں یوں ‌تو کئی حسین چہرے تھے ۔ مگر جس چہرے نے ہمیں متاثر کیا اس کا ذکر کرنا شامتِ اعمال کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا کہ آج کل وہ قومی اسمبلی کی ممبر ہیں ۔ اس کی آمد گویا آمدِ بہار ہوتی تھی اور لوگ اسے چوری چھپے دیکھتے تھے ۔ مگر خدا کی قسم ۔۔۔ ہم نے کبھی اسےچوری چھپے نہیں دیکھا ۔ بلکہ جب بھی دیکھا ٹکٹکی باندھ کر دیکھا ۔ جس پر ایک دن ہمارے پروفیسر صاحب خفا ہوگئے اور کہا “ یہ کہاں دیکھ رہے ہو ۔ شرم نہیں آتی کلاس میں بیٹھ کر ایسی حرکتیں کرتے ہو ۔“ ہم نے بڑی عاجزی سے عرض کیا کہ ” سر ! رات سوتے ہوئے گردن توڑ ہوگیا ہے اس لیئے گردن اپنے زوایے پر قائم نہیں رہی ۔ گردن موڑنے سے قاصر ہوں اگر آپ کہیں تو کلاس سے نکل جاتا ہوں ۔ مگر آپ جیسے قابل استاد کا لیکچر سننے سے محروم رہ جاؤں گا ۔ ” پروفیسر صاحب نے تاسف بھرے لہجے میں احیتاط کی ہدایت کی اور اپنے لیکچر میں مشغول ہوگئے اور ہم موصوفہ کو لیکچر کے دوران جی بھر دیکھتے رہے ۔
ٹکٹکی باندھ کر مسلسل دیکھنے سے ہمیں واقعی گردن توڑ ہوگیا ۔ اور ساتھ یہ خوف بھی غالب آگیا کہ اگر کسی دن موصوفہ نے اپنی کرسی بدل لی تو ہمارا کیا ہوگا ۔ اس عمل سے جہاں ہماری زرافے جیسی گردن پر اثر پڑا ۔ وہاں والدِ محترم پر ہماری تعلیمی قابلیت کی قلعی بھی کُھل گئی ۔ انہوں نے اپنے خریدے ہوئے چھتر سے ہمارے وہ طبق روشن کیئے جس کا مڈیکل سائنس کی تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا ۔ اس روایتی تشدد کے نتیجے میں ہمیں گردن توڑ کے ساتھ مذید توڑوں سے بھی مستفید ہونا پڑا ۔ مذید ستم یہ ہوا کہ ظالم ڈاکٹروں نے ہمیں اہرامِ مصر کی کوئی ممی سمجھ کر ایسی مرہم پٹی کی کہ صرف ناک سے سانس لینے کا راستہ کُھلا چھوڑا ۔ اور جب ہم پلاسٹر اور پٹیوں میں جکڑے کرسی پر بیٹھے ہوئے ہوتے تو محلے کے بچے ہمیں حرکات و سکنات سے محروم دیکھ کر جھاڑو کے تنکوں سے ہماری ناک میں گدگدی کر کے ہمیں چھینک دلانے کی کوشش کرتے اور جب ہمیں چھینک آتی تو پلاسٹر کی وجہ سے جو کچھ جڑا ہوا ہوتا تھا وہ پلاسٹر کے کُھلنے کے بعد ٹوٹی ہوئی چائینا کی پلیٹوں کی طرح برآمد ہوجاتا ۔ جس پر ڈیوٹی بھی کوئی مقرر نہیں تھی ۔ اور ہم بے پیندہ لوٹے کی طرح سجدہ ریز ہوجاتے ۔اس خاص موقع پر گلی میں ہمارا کوئی دشمن اپنے اسٹیریو پر اقبال کا شعر بغیر کسی کمرشل کے ، حبیب ولی محمد کی آواز میں بار بار دھراتا :
” تیرا دل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں ”
ہماری شاندار تعلیمی قابلیت کو دیکھتے ہوئے والد ِ محترم کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ” لونڈا ۔۔ پڑھائی میں‌ دھیان نہیں دے رہا ہے تو اس کو کوچنگ سینڑ پر بٹھا دو ۔ ( ہمیں تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی کوٹھے پر بٹھانے کی بات کہہ رہے ہوں ) ۔
کوچنگ سینٹر میں دوسرا دن تھا کہ اس پر نظر پڑ گئی ۔ کیا بلا کی سادگی تھی ، کیا سانولا پن تھا ۔ یعنی اوپر والے نے پھر چھپر پھاڑ کر دیا تھا ۔ صبح و شام کے اوقات آسان ہوگئے تھے ۔ کالج جاکر آنکھوں کو سیکنے کی خواہش صبح ہی صبح بیدار کردیتی تو والد صاحب بڑی حیرت سے دیکھتے اور پوچھتے کیوں خیریت ! اتنی صبح کیسے اٹھ گئے۔ ؟ کیا دودھ لینے جانا ہے ۔؟ ” اور شام کو ڈوبتے سورج جیسی شفق کو قریب سے دیکھنے کی خواہش بغیر کسی کاہلی کا مظاہرہ کیے ، کوچنگ سینٹر لے جاتی تھی ۔ دونوں جگہ وقت کی پابندی اور تعلیم میں دلچسپی اس بات کا مظہر تھی کہ میں عنقریب کراچی میں ٹاپ کرنے والا ہوں ( یہ میرے والدِ محترم کا نکتہِ نظر تھا ) ۔
ایک جانب کسی کے حسن سے ہم بے حال تھے تو دوسری طرف کسی کے سانولے پن اور سادگی نے ہماری دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کیا ہوا تھا ۔ کسی طور بھی دل کو قرار نہ تھا ۔ لگتا تھا کہ یہ اسی فقیر کی بدعا کا نتیجہ ہے جس کی لُنگی میں بچپن میں ہم نے پٹاخہ باندھ دیا تھا ۔ اور پھر اس نے دھوتی اٹھا کر جو بدعا دی تھی اس کا تذکرہ کرنا اخلاقی تقاضوں کے مطابق مناسب نہیں لگتا ۔ سو پہلے بھی ہم بیک وقت دو عشقِ بُتاں میں‌ گرفتار ہوئے ۔مگر فیض کے اشارے پر دونوں‌کو ادھورا چھوڑنا پڑا ۔ اب پھر وہی معرکہ آن پڑا تھا ۔ ادھر جائیں تو دل ہاتھ سے نکلتا تھا ۔ اُدھر جائیں‌ تو جگر پیٹنے کا جی کرتا تھا ۔ عجب کشمکش کا عالم تھا ۔ اب فیض بھی نہیں‌ رہے تھے کہ ان سے کوئی دوسری نظم لکھوا لیتے ۔ اچانک ہمیں اپنے دوست شاہد صدیقی کا خیال آیا ۔ جو ہمارے ساتھ کالج میں‌ پڑھتے تھے مگر ذہانت کا وہ عالم تھا کہ ایک پیرائیوٹ اسکول میں شعبہِ تدریسی سے بھی منسلک تھے ۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ ان کی ذہانت ہمارا کوئی ” ایک عشق ” متعین کرنے میں کارآمد ثابت ہوگی ۔

4 تبصرے (+add yours?)

  1. Rizwan
    اکتوبر 10, 2010 @ 13:08:14

    بھیا کہاں یہ محتسب بنے بیٹھے ہو کیا احوال ہیں زندہ ہو؟

    رضوان

    جواب دیں

  2. zafriusa
    اکتوبر 10, 2010 @ 21:03:09

    زندہ ہوں اس طرح کہ زندگی نہیں ۔۔۔۔ ارے بھائی میری چھوڑو ۔۔۔۔ تم کہاں‌ ہو ۔ اس زیرِ تعمیر بلاگ پر نمودار کیسے ہوگئے ۔

    جواب دیں

  3. Rizwan
    اکتوبر 12, 2010 @ 04:28:09

    زیرِ تعمیر کیا مطلب؟ کیاشٹرنگ وغیرہ ابھی ہٹائی نہیں ہے یا مستری کو جب تک کوئی دوسرا نہیں ملتا وہ چھوڑنے پر راضی نہیں ہے؟
    اور تیرا یہ ڈائلاگ“ زندہ ہوں اس طرح کہ زندگی نہیں“ ہر دفعہ جب وہ مائیکے جاتی ہیں تو اسی طرح بھرم دیتے ہو؟؟
    رہ گئی میری بات تو بھائی زندگی ساتھ چھوڑنے پر راضی نہیں ہے اس لیے جیئے جا رہے ہیں۔

    جواب دیں

  4. zafriusa
    اکتوبر 16, 2010 @ 14:54:27

    زیرِ تعمیر اس لیئے کہا کہ جب آپ کی یہاں آمد ہوئی تو میں اس بلاگ کی آرائش و زیبائش میں مصروف تھا ۔ اور رہی بات میکے کی تو ہم تو ترس رہے ہیں کہ کبھی اس بھی نوبت آئے کہ ہم بھی کہیں کہ وہ میکے گئی ہوئی ہے مگر اس کے لیئے کسی کا اس طرح ہونا ضروری ہے کہ اس کا میکہ بھی ہو۔
    اور رہی بات تمہاری جینے کی تو اللہ تمہاری عمر دراز کرے اور ہمیشہ خوش رکھے ۔

    جواب دیں

Leave a reply to zafriusa جواب منسوخ کریں